Friday, 30 January 2015

بات کرتے ہی یہ کہہ اٹھتے ہیں منشاء کیا ہے
بات کرنے کا تمھارے یہ طریقہ کیا ہے
ضد پر آ جاؤں تو جی بھر کے ستا کر چھوڑوں
تو نے اے چھیڑنے والے مجھے سمجھا کیاہے
اس نے عرض تمنا کی اجازت دے دی
میں ہوں اس سوچ میں یا رب کہ تمنا کیا ہے
درد تو بخش دیا خیر کوئی بات نہیں
اب ذرا یہ تو کہو اس کا مداوا کیا ہے
تم سے کرتا ہے شکایت جو کوئی کرنے دو
اس میں سچ پوچھو تو نقصان تمھارا کیا ہے
ایک اظہار محبت پہ یہ غصہ توبہ
جانے بھی دیجئے ان باتوں میں رکھا کیا ہے
میں کبھی یہ نہ کہونگی
کہ کرم کجیئے آپ
آپ خود سوچئے الفت کا تقاضہ کیا ہے
رنج اٹھاتے ہیں ستم سہتے ہیں چپ رہتے ہیں
جانتے ہیں کہ شکایات سے ہوتا کیا ہے
رنج دن رات کا دیکھا نہیں جاتا جاناں
نہیں معلوم کہ اس عشق میں ہوتا کیا ہے

No comments:

Post a Comment