Sunday, 11 January 2015



کیا جانیۓ کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں

تْم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئ ہوں

پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنّتِ انساں
میں جنّتِ انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں

جس ہاتھ کی تقدیس نے گْلشن کو سنوارا
اس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں

قسمت کے کھلونے ہیں اْجالا کہ اندھیرا
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں

No comments:

Post a Comment