کیا جانیۓ کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
تْم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئ ہوں
پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں
صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنّتِ انساں
میں جنّتِ انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں
جس ہاتھ کی تقدیس نے گْلشن کو سنوارا
اس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اْجالا کہ اندھیرا
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں
No comments:
Post a Comment