Saturday, 10 January 2015

جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں
دیکھو ابھی تک کچھ نہیں بدلا
مرے بستر پہ وہ ہی رات تکیے سے لپٹ کر رو رہی ہے
جس کا ہم نے ’’وصل کی شب‘‘ نام رکھا تھا
مرے کمرے کی اک دیوار پہ تصویر میں وہ شام کا منظر
تمہاری یاد میں ڈوبا ہی رہتا ہے
اذیت سے بھرا اک دُکھ
ابھی تک میز پر رکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑا ہے
جو محبت کے کسی بھی آخری جملے میں ہوتا ہے
محبت اور نفرت کا ہر اک لمحہ مرے سینے میں رکھا ہے
نہ جانے جرم کیا ہے اور کیسی قید ہے جس میں
میں اپنے جسم کا ہر ایک حصہ قید پاتی ہوں
چلوں تو پاؤں میں وعدوں کی زنجیریں کھنکتی ہیں
تمہاری راہ تکتی ہیں
کہیں بھی جا نہیں سکتی
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں
دیکھو ابھی تک کچھ نہیں بدلا ۔۔!!

No comments:

Post a Comment