Saturday, 1 October 2016


اجنبی اجنبی سے چہرے , وہ خواب خیمے رواں دواں سے وہ
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے

یہ عکس داغ ِ شکست ِ پیماں  ,وہ رنگ ِ زخم ِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے

یہ سنگریزے عداوتوں کے  وہ آبگینےسخاوتوں کے
دل ِ مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے

بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
ترے لیے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھائوں زباں زباں سے

مری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا ہو کے آیا وہاں وہاں سے

تو ہمنفس ہے نہ ہمسفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکین مکیں سے مکاں مکاں سے

ابھی محبت کا اسم اعظم لبوں پہ رہنے دے جان ِ محسن
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے....

Tuesday, 30 August 2016


تمہارے ساتھ نے جاناں!
مجھے 'تخلیق' بخشی تھی
میرے الفاظ کو ترتیب
تخیّل کو بہت سے خواب...
کہ میں تو کشف سے، پل بھر میں واقف ہو گئی جیسے
میں نے وجدان پایا تھا،
بہت سے رنگ میری سوچ میں یوں بھر گئے تھے کہ...
ستارے
پھلجڑی
جگنو
بہاریں، سب لگے پھیکے...
مگر جب سے گئے ہو تم،
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے
کہ جیسے دوپہر میں گہن لگ جاتا ہے سورج کو
اچانک رات ہوتی ہے،
پرندے سہم جاتے ہیں،
کچھ ایسا خود سے کہتے ہیں،
"ابھی تو دانہ چگنا تھا"
"ابھی تو گھر بنانا تھا"
"یہ یکدم شام کیوں آئی؟"
کسی سہمے ہوئے طائر کی مانند میں بھی بیٹھی ہوں...
کہاں جائوں؟؟؟
میں کیا سوچوں؟؟؟
تخیّل بانجھ ہو جس کا...
بھلا وہ کس طرح سوچے..؟؟
وہ کہتا ہے محبت ہے تو کیوں ہو اسقدر خاموش
کہ میری اس سماعت کو فقط اظہار کی ضد ہے
میں کہتی ہوں میرے ہمدم تم آنکهوں کی زباں سمجهو
کہ جو اظہار ان میں ہے وہ لفظوں میں نہیں ممکن
وہ کہتا ہے سمجهتا ہوں تمہاری ان کہی باتیں
مگر یہ خامشی کا شور اب میں سہہ نہیں سکتا
میں کہتی ہوں ارے ناداں یہی سر ہیں محبت کے
جو بجتے ہیں نگاہوں میں تو بے چینی بڑهاتے ہیں
وہ کہتا ہے نگاہوں سے لبوں تک کا سفر اتنا کٹهن کب ہے
بڑها کے تشنگی روح کی کیا میری جان تم لو گی؟
میں کہتی ہوں اب اس کے بعد تم اک لفظ نہ کہنا
مجهے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے

Wednesday, 22 June 2016


تیری قربتیں بھی سراب ہیں یہ بھلا ہوا جو ملیں نہیں
تیری دوریاں بھی عذاب ہیں میری دشتِ جاں سے ٹلی نہیں

کسی آگ نے وہ دھواں دیا ، مجھے دیکھنے بھی کہاں دیا
وہ مسافتوں کا جہاں دیا کہیں راستہ ہے کہیں نہیں

مجھے زندگی وہ دیا لگے کہ ابھی بجھے جو ہوا لگے
کبھی کیا لگے ، کبھی کیا لگے کسی زاوئیے پہ یقیں نہیں

کہ شکستہ پا میں رکوں کہاں، یہ ہے فاصلوں کا نیا جہاں
ہے اگر زمیں نہیں آسماں، ہے جو آسماں تو زمیں نہیں

پس چشمِ نم وہ ضرور ہے، میرا دل جفاؤں سے چور ہے
میری منزلوں کا قصور ہے، تیرے راستوں سے ملیں نہیں

Sunday, 15 May 2016

Samandar Sarey Sharab Hotey 
Toh Socho Kitney Fasad Hotey, 
Gunah Na Hotey Sawab Hotey 
Toh Socho Kitney Fasad Hotey,  
Thi Khamoshi Fitrat Humari Jo Chand Barson Bhi Nibh Gayi Hy, 
Agar Hamary Moun Mein Jawab Hotey 
Toh Socho Kitny Fasad Hoty, 
Hum Achy Thay Par 
Sada Logon Ki Nazar Mein Burey Rahey, 
Kahin Hum Such Mein 
Kharab Hotey Toh Socho Kitney Fasad Hotey...!!

وہ لمحہ کتنا بھاری تھا
کہ جب تم کو بچھڑنا تھا
مجھے یہ طے بھی کرنا تھا
کہ چاہے کچھ بھی ہو اب لوٹ کر انا نہیں مجھکو
تمھاری یاد آئے گی تری باتوں کو ترسونگا
مگر مجھکو تو سہنا ہے
مجھے سب کچھ بھلانا ہے
وہاں جب دھوپ نکلے گی
تری زلفیں نہیں ہونگی
مگر کوئی شجر تو مل ہی جائے گا
وہیں پر بیٹھ جاوئنگا
وہ لمحہ کتنا بھاری تھا
مجھے یہ طے بھی کرنا تھا
کہ اب ہے جاگنا مجھکو
نہ کوئی خواب دیکھونگا
نہ کوئی گیت گائونگا
نہ کوئی ایسی ویسی بات میں ہونٹوں پہ لائونگا
کہ جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجائے
حرارت خون میں آئے
لبوں کی تشنگی کو اضطرابِ شوق آجائے
ہاں جس رستے سے تو آئے
میں وہ رستہ بدل دونگا
میں تجھ کو بھول جائونگا
تصور سے تخیل سے تیرے خاکے مٹا دونگا
مگر یہ معجزہ ہوگا
اگر تجھکو بھلا پایا

ﮔﻮﺷﮧ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺩِﻝ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺭِﺳﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻏﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﯾﺎﺩ ﺁﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﻭﯾﺮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﻢ ﻧﮧ ﻣﻞ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺭﻭﺋﮯ ﮔﯽ ﺻُﺒﺢ ﮨﻤَﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﻣُﻀﻄﺮ ﮨﻮﮔﯽ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﭩﮑﺘﯽ ﮨُﻮﺋﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻏﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺩُﮬﻮﭖ ﺗﻮ ﺟُﮭﻠﺴﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﺭﮨﮯ
ﺟﺎﮞ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ ﮨُﻮﺋﮯ ﺭﮐﮭّﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﮨﻢ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﺍﻏﻮﮞ ﮐﮯ ﺳُﻠﮕﻨﮯ ﭘﮧ ﺧﻠﺶ
ﺩﺭﺩ ﺟﺐ ﺣﺪ ﺳﮯ ﮔُﺰﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ

Monday, 11 April 2016


تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو !
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھُولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
چراغِ خواب گُل کرنے کی سازش کو
ہوا دیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسموں کی گرد
اور اِس گرد کی تہہ میں
سمے کی دھُوپ میں رکھا اِک آئینہ
اور آئینے میں تا حد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اِسی منظر میں آئینے سے اُلجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں تو کُچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی کو کئی کردار
مل جُل کر کہیں آگے چلاتے ہیں
محبت اپنے کرداروں کو خود آگے بڑھاتی ہے
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھُول اُڑتی ہے
محبت کی مُسافت راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اِک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں
جو بھی تھکا ہارا مُسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اُس کی نسل کیا ہے ، رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا
دھُوپ سہنا ہے
اُسے اِس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھایا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا ، کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہو جائے
تو اکثر دھُوپ کے نیزے
رگ و پَے میں اُترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں !

ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍُﺟﮍ ﮔﺌﯿﮟ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺩُﮬﻮﭖ ﻧﮯ ﭼﮩﺮﺍ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ
ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﺑﮑﮭﺮ ﭼﻠﯽ
ﺁﺋﯿﻨﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻋﮑﺲ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﮯ
ﺁﺋﮯ ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﺑﺎﺭ ﺟﻮ ﮔﺌﮯ
ﻭﮦ ﺩﻥ، ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ، ﻭﮦ ﺭُﺕ ، ﻭﮦ ﻣﻮﺳﻢ ، ﻭﮦ ﺳﺮﮐﺸﯽ
ﺍﮮ ﮔﺮﺩﺵِ ﺣﯿﺎﺕ ، ﺍﮮ ﺭﻓﺘﺎﺭِ ﻣﺎﮦ ﻭ ﺳﺎﻝ
ﮐﯿﺎ ﺟﻤﻊ ﺍِﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮨﻮﮞ ﮨﻮ ﻧﮕﮯ ﻧﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ
ﺟﻮ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﯽ ﺩﻟﺪﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﮯ
ﭘﺘﮯ ﺟﻮ ﮔِﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﮍ ﺳﮯ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺑﮩﺎﺭ
ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮﮮ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺩﮬﻨﮏ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﻭُﻓﻮﺭِ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ
ﺟﮭﻠﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮﺍ __ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ
ﺍِﮎ ﺯُﻟﻒ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ
ﻟﻤﺤﮯ ﺯﻣﺎﻥِ ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ
ﺭﯾﮓِ ﺭﻭﺍﻥِ ﺩﺷﺖ ﮐﯽ ﺗﻤﺜﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺍِﺱ ﺩﺷﺖ ﭘﺮ ﺳﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﭩﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ
ﻧﻘﺶِ ﻗﺪﻡ ﺗﮭﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﺑﮭﯽ، ﭘﺎ ﻣﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺭﺳﺘﮧ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﺎ
ﺷﯿﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﯾﻘﯿﻦ ﺑﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺟﺲ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ
ﺍِﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺗﻮ۔۔۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ

Friday, 15 January 2016

زندگی     فلسفہ     نہیں    کوئی    
یہ ہے وہ آج,جس میں جیتے ہیں

کبھی یہ سوگ بن کے طاری ہے 
کبھی  یہ جشن  ہم  مناتے ہیں

یہ وہ سورج جو ڈوب جاتے ہیں 
یہ وہ جگنو جو  راہ دکھاتے ہیں 

کبھی  طوفان   جو   ڈبوتے  ہیں 
کبھی ساحل جو کھینچ لاتے ہیں

یہ ہے وہ نیند  جو  تباہ کر دے 
یہ ہے وہ خواب جو جگاتے ہیں 

یہ وہ آسیب جس سے ڈرتے ہیں 
یہ وہ اپنے ہیں جن پہ مرتے ہیں

یہ وہ رستہ ہے جو جدا کر دے
یہ حسیں موڑ  جو  ملاتے ہیں

یہ  وہ   شکوے   جو   دور   کر   دیتے 
یہ وه خوشیاں ہیں جن میں بستے ہیں

یہ  وه  قصّہ  ہے جو  رلاتا  ہے 
یہ ہے وه دھن جو گنگناتے ہیں

کبھی  دشمن کی  چال  چلتی  ہے 
کبھی ہم دوست اس کو پاتے ہیں

کبھی  آتش  بنے  فنا  کر  دے
کبھی شمع ہے جو جلاتے ہیں  

 کبھی لڑتے ہیں دور کرتے ہیں     
کبھی سر پہ  اسے بٹھاتے ہیں

ہے  گناہ  جو  عذاب  دیتا  ہے 
یہ وہ نیکی جو ہم کماتے ہیں

زندگی سوچ بس ہماری ہے 
ہم پہ ہے کیا اسے بناتے ہیں