Tuesday, 30 August 2016

وہ کہتا ہے محبت ہے تو کیوں ہو اسقدر خاموش
کہ میری اس سماعت کو فقط اظہار کی ضد ہے
میں کہتی ہوں میرے ہمدم تم آنکهوں کی زباں سمجهو
کہ جو اظہار ان میں ہے وہ لفظوں میں نہیں ممکن
وہ کہتا ہے سمجهتا ہوں تمہاری ان کہی باتیں
مگر یہ خامشی کا شور اب میں سہہ نہیں سکتا
میں کہتی ہوں ارے ناداں یہی سر ہیں محبت کے
جو بجتے ہیں نگاہوں میں تو بے چینی بڑهاتے ہیں
وہ کہتا ہے نگاہوں سے لبوں تک کا سفر اتنا کٹهن کب ہے
بڑها کے تشنگی روح کی کیا میری جان تم لو گی؟
میں کہتی ہوں اب اس کے بعد تم اک لفظ نہ کہنا
مجهے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے

No comments:

Post a Comment