وہ کہتا ہے محبت ہے تو کیوں ہو اسقدر خاموش
کہ میری اس سماعت کو فقط اظہار کی ضد ہے
میں کہتی ہوں میرے ہمدم تم آنکهوں کی زباں سمجهو
کہ جو اظہار ان میں ہے وہ لفظوں میں نہیں ممکن
وہ کہتا ہے سمجهتا ہوں تمہاری ان کہی باتیں
مگر یہ خامشی کا شور اب میں سہہ نہیں سکتا
میں کہتی ہوں ارے ناداں یہی سر ہیں محبت کے
جو بجتے ہیں نگاہوں میں تو بے چینی بڑهاتے ہیں
وہ کہتا ہے نگاہوں سے لبوں تک کا سفر اتنا کٹهن کب ہے
بڑها کے تشنگی روح کی کیا میری جان تم لو گی؟
میں کہتی ہوں اب اس کے بعد تم اک لفظ نہ کہنا
مجهے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے
No comments:
Post a Comment