Friday, 24 February 2017


Maine chand aur sitaro ki tamanna ki thi
Mujhko raato ki siyahi ke siva kuch na mila

Mai vo naghma hoon
Jise pyar ki mahfil na mili
Vo musafir hoon jissey koi bhi manzil na mili 
Zakham paye hain baharou ki tamanna ki thi
Maine chand aur sitaro ki tamanna ki thi


Kisi gesu kisi aanchal ka sahara bhi nahi
Raastey me koi dhundhla sa sitara bhi nahi
Meri nazro ne nazaro ki tamanna ki thi
maine chand aur sitaro ki tamanna ki thi
Meri raahou se juda ho gai rahein unki
Aaj badli nazar aati hai nigahein unki
Jis se is dil ne saharo ki tamanna ki thi
Maine chand aur sitaro ki tamana ki thi

Pyar manga to sisakte hoye araman mile
Chain chaha to umadate hoye tufan mile
Doobtey dil ne kinaro ki tamanna ki thi
Maine chand aur sitaro ki tamanna ki thi
Mujhko rato ki syahi ke siva kuch na mila
Maine chand aur sitaro ki tamanna ki thi.

Friday, 3 February 2017

afsanchay


میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی 

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے

میرے حرفوں ، میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
میرا فن اب میرا مذہب ، میرا ایمان بھی ہے

میر و غالب نہ سہی ، پھر بھی غنیمت جانو
میرے یاروں کے سِرہانے میرا دیوان بھی ہے

مجھ سے پوچھو کہ شکستِ دل و جاں سے پہلے
میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیا کیا

سایہء دار و شبِ غم کی سخاوت سے الگ
میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا

میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے
میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا

طنزِ اغیار سے احباب کے اخلاص تلک
میں نے ہر نعمتِ عظمیٰ کا لبادہ پہنا

دستِ قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی
میں نے ہر زخم قبا سے بھی زیادہ پہنا

میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن
میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا

ضربتِ سنگِ ملامت میرے سینے پہ سجی
تمغہء جرّات و اعزازِ حکومت کی طرح

کُھل کے برسی میری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا
آسمانوں سے اُترتی ہوئی دولت کی طرح

قریہ قریہ ہوئی رسوا میرے فن کی چاہت
کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح

میرے آنگن میں حوادث کی سواری اُتری
میرا دل وجہء عذابِ در و دیوار ہوا

عشق میں عزّتِ سعادت بھلا کر اکثر
میر صاحب کی طرح میں بھی گناہ گار ہوا

اپنی اُجڑی ہوئی آنکھوں سے شعائیں لے کر
میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے

اپنی غزلوں کے سُخن تاب ستارے چُن کر
سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے

حسنِ خاکِ رہِ یاراں سے محبت کر کے
میں نے ہر موڑ کو اِک تازہ کہانی دی ہے

مجھ سے روٹھے ہیں میرے اپنے قبیلے والے
میرے سینے میں ہر اِک تیرِ ستم ٹوٹا ہے

کربِ نا قدریء یاراں کہ بھنور میں گِھر کر
بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے

میرے اعادہ کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو
میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے

مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی

میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی

میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی۔۔

Thursday, 5 January 2017

ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺩﻝ ﻭﺍﺭ ﺑﺮﺱ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﯿﻨﮧ ﮔﯿﺎ ﺗﺮﺱ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺑﮧ ﺗﺎﺋﺐ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ
ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﯿﺎ ﻭﯾﺮﺍﻧﮧ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺲ ﺳﺎﺋﯿﮟ ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺲ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺩﻝ ﻭﺍﺭ ﺑﺮﺱ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﺍﺱ ﻋﺸﻖ ﻧﮯ ﻋﺠﺐ ﺍﺳﯿﺮ ﮐﯿﺎ
ﺧﻮ ﺩﻝ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﮐﯿﺎ
ﮐﯿﺎ ﭼﻠﮯ ﮔﯽ ﭘﯿﺶ ﻭ ﭘﺲ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺩﻝ ﻭﺍﺭ ﺑﺮﺱ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﻟﯿﮟ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﮬﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﻟﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﮔﮭﻮﻝ ﻓﻀﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺱ ﺳﺎﺋﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺩﻝ ﻭﺍﺭ ﺑﺮﺱ ﺳﺎﺋﯿﮟ

Saturday, 1 October 2016


اجنبی اجنبی سے چہرے , وہ خواب خیمے رواں دواں سے وہ
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے

یہ عکس داغ ِ شکست ِ پیماں  ,وہ رنگ ِ زخم ِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے

یہ سنگریزے عداوتوں کے  وہ آبگینےسخاوتوں کے
دل ِ مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے

بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
ترے لیے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھائوں زباں زباں سے

مری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا ہو کے آیا وہاں وہاں سے

تو ہمنفس ہے نہ ہمسفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکین مکیں سے مکاں مکاں سے

ابھی محبت کا اسم اعظم لبوں پہ رہنے دے جان ِ محسن
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے....

Tuesday, 30 August 2016


تمہارے ساتھ نے جاناں!
مجھے 'تخلیق' بخشی تھی
میرے الفاظ کو ترتیب
تخیّل کو بہت سے خواب...
کہ میں تو کشف سے، پل بھر میں واقف ہو گئی جیسے
میں نے وجدان پایا تھا،
بہت سے رنگ میری سوچ میں یوں بھر گئے تھے کہ...
ستارے
پھلجڑی
جگنو
بہاریں، سب لگے پھیکے...
مگر جب سے گئے ہو تم،
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے
کہ جیسے دوپہر میں گہن لگ جاتا ہے سورج کو
اچانک رات ہوتی ہے،
پرندے سہم جاتے ہیں،
کچھ ایسا خود سے کہتے ہیں،
"ابھی تو دانہ چگنا تھا"
"ابھی تو گھر بنانا تھا"
"یہ یکدم شام کیوں آئی؟"
کسی سہمے ہوئے طائر کی مانند میں بھی بیٹھی ہوں...
کہاں جائوں؟؟؟
میں کیا سوچوں؟؟؟
تخیّل بانجھ ہو جس کا...
بھلا وہ کس طرح سوچے..؟؟
وہ کہتا ہے محبت ہے تو کیوں ہو اسقدر خاموش
کہ میری اس سماعت کو فقط اظہار کی ضد ہے
میں کہتی ہوں میرے ہمدم تم آنکهوں کی زباں سمجهو
کہ جو اظہار ان میں ہے وہ لفظوں میں نہیں ممکن
وہ کہتا ہے سمجهتا ہوں تمہاری ان کہی باتیں
مگر یہ خامشی کا شور اب میں سہہ نہیں سکتا
میں کہتی ہوں ارے ناداں یہی سر ہیں محبت کے
جو بجتے ہیں نگاہوں میں تو بے چینی بڑهاتے ہیں
وہ کہتا ہے نگاہوں سے لبوں تک کا سفر اتنا کٹهن کب ہے
بڑها کے تشنگی روح کی کیا میری جان تم لو گی؟
میں کہتی ہوں اب اس کے بعد تم اک لفظ نہ کہنا
مجهے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے

Wednesday, 22 June 2016


تیری قربتیں بھی سراب ہیں یہ بھلا ہوا جو ملیں نہیں
تیری دوریاں بھی عذاب ہیں میری دشتِ جاں سے ٹلی نہیں

کسی آگ نے وہ دھواں دیا ، مجھے دیکھنے بھی کہاں دیا
وہ مسافتوں کا جہاں دیا کہیں راستہ ہے کہیں نہیں

مجھے زندگی وہ دیا لگے کہ ابھی بجھے جو ہوا لگے
کبھی کیا لگے ، کبھی کیا لگے کسی زاوئیے پہ یقیں نہیں

کہ شکستہ پا میں رکوں کہاں، یہ ہے فاصلوں کا نیا جہاں
ہے اگر زمیں نہیں آسماں، ہے جو آسماں تو زمیں نہیں

پس چشمِ نم وہ ضرور ہے، میرا دل جفاؤں سے چور ہے
میری منزلوں کا قصور ہے، تیرے راستوں سے ملیں نہیں