Tuesday, 30 August 2016


تمہارے ساتھ نے جاناں!
مجھے 'تخلیق' بخشی تھی
میرے الفاظ کو ترتیب
تخیّل کو بہت سے خواب...
کہ میں تو کشف سے، پل بھر میں واقف ہو گئی جیسے
میں نے وجدان پایا تھا،
بہت سے رنگ میری سوچ میں یوں بھر گئے تھے کہ...
ستارے
پھلجڑی
جگنو
بہاریں، سب لگے پھیکے...
مگر جب سے گئے ہو تم،
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے
کہ جیسے دوپہر میں گہن لگ جاتا ہے سورج کو
اچانک رات ہوتی ہے،
پرندے سہم جاتے ہیں،
کچھ ایسا خود سے کہتے ہیں،
"ابھی تو دانہ چگنا تھا"
"ابھی تو گھر بنانا تھا"
"یہ یکدم شام کیوں آئی؟"
کسی سہمے ہوئے طائر کی مانند میں بھی بیٹھی ہوں...
کہاں جائوں؟؟؟
میں کیا سوچوں؟؟؟
تخیّل بانجھ ہو جس کا...
بھلا وہ کس طرح سوچے..؟؟
وہ کہتا ہے محبت ہے تو کیوں ہو اسقدر خاموش
کہ میری اس سماعت کو فقط اظہار کی ضد ہے
میں کہتی ہوں میرے ہمدم تم آنکهوں کی زباں سمجهو
کہ جو اظہار ان میں ہے وہ لفظوں میں نہیں ممکن
وہ کہتا ہے سمجهتا ہوں تمہاری ان کہی باتیں
مگر یہ خامشی کا شور اب میں سہہ نہیں سکتا
میں کہتی ہوں ارے ناداں یہی سر ہیں محبت کے
جو بجتے ہیں نگاہوں میں تو بے چینی بڑهاتے ہیں
وہ کہتا ہے نگاہوں سے لبوں تک کا سفر اتنا کٹهن کب ہے
بڑها کے تشنگی روح کی کیا میری جان تم لو گی؟
میں کہتی ہوں اب اس کے بعد تم اک لفظ نہ کہنا
مجهے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے