Saturday, 7 November 2015

ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺎﻧﺎ۔۔
ﻭﮦ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﮯ۔۔
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﮯ،
ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻻﺕ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮨﯿﮟ۔۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺘﺎ ﺩﻭﻧﮕﺎ !!!
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺘﺎ ﺩﻭﻧﮕﺎ،
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ۔۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺎﮔﺮ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ
ﮐﺴﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ؟
ﮐﮧ ﺟﺴﮑﻮ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ،
ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺗﮏ ﺗﻮ ﻻﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻻﺕ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ !!!
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ

ہم جو ٹوٹے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے ہاتھوں سے گر کے پتھر پہ
کوئی شفاف آئینہ ٹوٹے
جیسے پلکوں سے ٹوٹتا آنسو
جیسے سینے میں اک گُماں ٹوٹے
جیسے امید کی نازک ڈالی
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری
وقتِ طویل میں الجھ جائے
جیسے پیروں تلے سے زمیں نکلے
جیسے سر پہ آسماں ٹوٹے
جیسے ایک شاخ پہ بھروسہ کیا
اس پہ جتنے تھے آشیاں، ٹوٹے
جیسے وحشت سے ہوش آ جائے
جیسے تا دیر میں دھیاں ٹوٹے
کس نے دیکھا تھا ٹوٹنا اپنا
ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے،،!!!

Friday, 6 November 2015

Phira Hun Saaray Zamanay Mein Darbadar Kaisay
Mein Tere Baad Bhi Zinda Raha Magar Kaisay

Wo Jaanta Hai Ke Kuch Roz Wo Nahi Tha Tou Mein
Pukaarta Raha Os Ko Idhar Udhar Kaisay

Mein Jis Ke Hijr Mein Roya Hun Paaglon Ki Tarah
Wo Kal Mila Tou Hansa Mere Haal Per Kaisay

Azeez-Tar Thi Jisay Neend Shaam-e-Vasl Mein Bhi
Wo Tere Hijr Mein Jaaga Hai Umer Bhar Kaisay

Kahan Ki Dosti , Kaisa Firaaq , Kon “Mohsin” 
Mein Khud Ko Bhool Gaya Tujh Ko Bhool Kar Kaisay

shikasta zeest...


اپنے سینے سے لگائے ہوئے اُمید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے

تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے

جب بھی راہوں میں نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے

اور اب جب کہ مری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے

تو دمکتے ہوئے عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے

میری محبوب __ یہ ہنگامہء تجدیدِ وفا
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں

میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے
اُن کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں

ایک یخ بستہ اُداسی ہے دل و جاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے ___ نہ امید ___ نہ جوش

رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی اُمنگوں کا خروش

ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایہ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا

بُجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا

تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو
میری افسردگیء غم کا مداوا تو نہیں

تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید
اِک تلافی ہی سہی ___ میری تمنا تو نہیں

abhi taq hum nahi bolay....

ابھی تو آپ ہیں، اور آپ کا زورِ خطابت ہے
بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے
-
ابھی تو لب کشائی،،،،،،،،، آپ کی اپنی گواہی ہے
ابھی تو آپ ہیں ظلِّ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے
-
ابھی تو علم و حکمت، لفظ و گوہر آپ ہی کے ہیں
ابھی سب فیصلے، سب مُہر و محور آپ ہی کے ہیں
-
ابھی سب زر،، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں
ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں
-
ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہو گا
ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہو گا
-
ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں
معظم،،، محتشم،، القاب ہیں خود اپنی نظروں میں
-
ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے
سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے
-
ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں،،،، کتنا خوب کہتے ہیں
جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں
-
-
-
مگر جب آپ کی سیرت پہ،،، ساری گفتگو ہو لے
تو یہ بھی یاد رکھیے گا ابھی تک ہم نہیں بولے