! اس سے پہلے کہ سوچ کا کُندن
شامِ غم کے اجاڑ صحرا میں
جل بجھے، بجھ کے راکھ ہو جائے
اس سے پہلے کہ چاہتوں کی یقیں
! واہموں کے بھنور میں کھو جائے
! اس سے پہلے کہ چاند کا جھومر
درد کی جھیل میں اُتر جائے
اور خواہش کی چاندنی کا غبار
وقت کی آنکھ میں بکھر جائے
اس سے پہلے کہ اپنے دل کی رگیں
ایک اِک کر کے ٹوٹتی جائیں
اور طنابیں گلاب خوابوں کی
اپنے ہاتھوں سے چھوٹتی جائیں
اس سے پہلے کہ گھیر لے مجھ کو
ہر طرف سے جلوزِ رُسوائی
قربتوں کے نشاں مِٹا ڈالے
! ہجر کے زلزلوں کی انگڑائی
اے میری بے سہاگ تنہائی
مجھ سے پرُسہ لے اپنے پیاروں کا
! بجھتے اشکوں کے اُن ستاروں کا
جو ہر اِک اجنبی کے رستے میں
نُور کی چادریں بچھاتے تھے
جو کسی صبح زاد کی دُھن میں
! رات بھر روشنی لٹاتے تھے
! اے میری بے سہاگ تنہائی
آ مِرے پاس، مجھ سے پرُسہ لے
اُن گلابوں کا، اُن سحابوں کا
حبس کی رُت میں جو برستے تھے
جن کے پل بھر کے لمس کی خاطر
! موسموں کے بدن ترستے تھے
اے میری بے سہاگ تنہائی
اس سے پہلے کہ سانس تھک جائے
شوق ڈھونڈے نئی گزر گاہیں
اس سے پہلے کہ بے نشاں ٹھہریں
! حسرتِ قرب کی سبھی راہیں
میری گردن میں ڈال دے باہیں
جُز میرے کون تجھ کو چاہے گا؟
! میں بھی تیری طرح اکیلا ہوں
! آنکھ میں تشنگی کا صحرا ہے
! دل میں پاتال کی سی گہرائی
اور کیا ہو رَہِ شناسائی؟
! .. اے میری بے سہاگ تنہائی
No comments:
Post a Comment