Monday, 11 April 2016


تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو !
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھُولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
چراغِ خواب گُل کرنے کی سازش کو
ہوا دیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسموں کی گرد
اور اِس گرد کی تہہ میں
سمے کی دھُوپ میں رکھا اِک آئینہ
اور آئینے میں تا حد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اِسی منظر میں آئینے سے اُلجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں تو کُچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی کو کئی کردار
مل جُل کر کہیں آگے چلاتے ہیں
محبت اپنے کرداروں کو خود آگے بڑھاتی ہے
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھُول اُڑتی ہے
محبت کی مُسافت راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اِک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں
جو بھی تھکا ہارا مُسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اُس کی نسل کیا ہے ، رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا
دھُوپ سہنا ہے
اُسے اِس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھایا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا ، کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہو جائے
تو اکثر دھُوپ کے نیزے
رگ و پَے میں اُترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں !

ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍُﺟﮍ ﮔﺌﯿﮟ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺩُﮬﻮﭖ ﻧﮯ ﭼﮩﺮﺍ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ
ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﺑﮑﮭﺮ ﭼﻠﯽ
ﺁﺋﯿﻨﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻋﮑﺲ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﮯ
ﺁﺋﮯ ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﺍِﮎ ﺑﺎﺭ ﺟﻮ ﮔﺌﮯ
ﻭﮦ ﺩﻥ، ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ، ﻭﮦ ﺭُﺕ ، ﻭﮦ ﻣﻮﺳﻢ ، ﻭﮦ ﺳﺮﮐﺸﯽ
ﺍﮮ ﮔﺮﺩﺵِ ﺣﯿﺎﺕ ، ﺍﮮ ﺭﻓﺘﺎﺭِ ﻣﺎﮦ ﻭ ﺳﺎﻝ
ﮐﯿﺎ ﺟﻤﻊ ﺍِﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮨﻮﮞ ﮨﻮ ﻧﮕﮯ ﻧﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ
ﺟﻮ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﯽ ﺩﻟﺪﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﮯ
ﭘﺘﮯ ﺟﻮ ﮔِﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﮍ ﺳﮯ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺑﮩﺎﺭ
ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮﮮ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺩﮬﻨﮏ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﻭُﻓﻮﺭِ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ
ﺟﮭﻠﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮﺍ __ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ
ﺍِﮎ ﺯُﻟﻒ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ
ﻟﻤﺤﮯ ﺯﻣﺎﻥِ ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ
ﺭﯾﮓِ ﺭﻭﺍﻥِ ﺩﺷﺖ ﮐﯽ ﺗﻤﺜﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺍِﺱ ﺩﺷﺖ ﭘﺮ ﺳﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﭩﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ
ﻧﻘﺶِ ﻗﺪﻡ ﺗﮭﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﺑﮭﯽ، ﭘﺎ ﻣﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺭﺳﺘﮧ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﺎ
ﺷﯿﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﯾﻘﯿﻦ ﺑﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺟﺲ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ
ﺍِﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺗﻮ۔۔۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ